(1)
دلی میں بہت سخت کی اب کے گذران
دل کو کر سنگ
عزت نہ رہی عاقبت کار نہ شان
کھینچا یہ ننگ
یاروں میں نہ تھا کوئی مروت جو کرے
اوجڑ تھے گھر
تا مدنظر صاف پڑے تھے میدان
عرصہ تھا تنگ
(2)
ٹک میرؔ زمانے سے نہ کر قال و مقال
بس اب چپ رہ
ہرچند خموشی ہے سخن گو کو وبال
ایذا ہی سہ
ایسا نہیں یہ قصۂ کاہش افزا
جو ہو آخر
اٹھ سوئیے ہوچکا ہے پچھلوں کا حال
آگے مت کہہ
(3)
ہستی کہ یہ ہنگامہ تمام اس کا ہے
اب تو ہے وبال
شہرت کہ جو اب جہاں جہاں ہرجا ہے
سو وہم و خیال
جھوکے میں اڑے باد فنا کے جب اب
تب ہیچ ہے سب
پھر نام سوا جہاں میں رہتا کیا ہے
عنقا کی مثال
(4)
منعم جو نبھی تری بناتے گھر در
تھا عہد شباب
پیری میں بنا وہم پہ رکھنا اکثر
ہے کچھ بھی حساب
اب جی ہے لگا ضعف سے ڈھہنے تیرا
یہ کیا ہے خیال
طاقت صرف عمارت دل ہی کر
اے خانہ خراب
(5)
تاچند غم دل سے حکایت کریے
ہو ہو کر تنگ
کس کس سے شب و روز شکایت کریے
آتا ہے ننگ
سختی کوئی اے صنم کہاں تک کھینچے
ہے جی میں کہ اب
ہو نالہ ترے دل میں سرایت کریے
پر تو ہے سنگ
(6)
کیا کیا آتی ہے اپنے جی میں لیکن
کیا کہیے کہ آہ
محراب میں سر ماریے کب تک تجھ بن
غم ہے جانکاہ
تو مست گذارہ ہووے غیروں کی جا
چھپ چھپ کر رات
ہم پھیرتے تسبیح پھریں سارے دن
سبحان اللّٰہ
میر تقی میر