Iztirab

Iztirab

دل ابھی تک جوان ہے پیارے

دل ابھی تک جوان ہے پیارے 
کس مصیبت میں جان ہے پیارے 
تو مرے حال کا خیال نہ کر 
اس میں بھی ایک شان ہے پیارے 
تلخ کر دی ہے زندگی جس نے 
کتنی میٹھی زبان ہے پیارے 
وقت کم ہے نہ چھیڑ ہجر کی بات 
یہ بڑی داستان ہے پیارے 
جانے کیا کہہ دیا تھا روز ازل 
آج تک امتحان ہے پیارے 
ہم ہیں بندے مگر ترے بندے 
یہ ہماری بھی شان ہے پیارے 
نام ہے اس کا ناصح مشفق 
یہ مرا مہربان ہے پیارے 
کب کیا میں نے عشق کا دعویٰ 
تیرا اپنا گمان ہے پیارے 
میں تجھے بے وفا نہیں کہتا 
دشمنوں کا بیان ہے پیارے 
ساری دنیا کو ہے غلط فہمی 
مجھ پہ تو مہربان ہے پیارے 
تیرے کوچے میں ہے سکوں ورنہ 
ہر زمیں آسمان ہے پیارے 
خیر فریاد بے اثر ہی سہی 
زندگی کا نشان ہے پیارے 
شرم ہے احتراز ہے کیا ہے 
پردہ سا درمیان ہے پیارے 
عرض مطلب سمجھ کے ہو نہ خفا 
یہ تو اک داستان ہے پیارے 
جنگ چھڑ جائے ہم اگر کہہ دیں 
یہ ہماری زبان ہے پیارے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *