دل ربا دل دار دل آرا نہ تھا شہر میں کوئی ترے جیسا نہ تھا نا خدائی کا وہ رتبہ لے گیا عمر بھر پانی میں جو اترا نہ تھا کرشن نے کنکر بہت پھینکے مگر اب کے رادھا کا گھڑا کچا نہ تھا ختم کر بیٹھا ہے خود کو بھیڑ میں جب تلک تنہا تھا وہ مرتا نہ تھا عکس ظاہر تھا مگر تھا اک سراب نقش دھندلا تھا مگر مٹتا نہ تھا میں جیا ہوں اس سمندر کی طرح جس کی قسمت میں کوئی دریا نہ تھا گرد آلود آنکھ تھی زاہدؔ مری ورنہ آئینہ تو وہ میلا نہ تھا