دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے
حال اگر ہے ایسا ہی تو جی سے جانا جانا ہے
اس کی نگاہ تیز ہے میرے دوش و بر پر ان روزوں
یعنی دل پہلو میں میرے تیر ستم کا نشانہ ہے
دل جو رہے تو پاؤں کو بھی دامن میں ہم کھینچ رکھیں
صبح سے لے کر سانجھ تلک اودھر ہی جانا آنا ہے
سرخ کبھو آنسو ہیں ہوتے زرد کبھو ہے منہ میرا
کیا کیا رنگ محبت کے ہیں یہ بھی ایک زمانہ ہے
اس نومیدیٔ بے غایت پر کس مقدار کڑھا کریے
دو دم جیتے رہنا ہے تو قیامت تک مر جانا ہے
فرصت کم ہے یاں رہنے کی بات نہیں کچھ کہنے کی
آنکھیں کھول کے کان جو کھولو بزم جہاں افسانہ ہے
تیغ تلے ہی اس کی کیوں نہ گردن ڈال کے جا بیٹھیں
سر تو آخر کار ہمیں بھی خاک کی اور جھکانا ہے
فائدہ ہوگا کیا مترتب ناصح ہرزہ درائی سے
کس کی نصیحت کون سنے ہے عاشق تو دیوانہ ہے
آنکھوں کی یہ مردم داری دل کو کسو دلبر سے ہے
طرز نگہ طراری ساری میرؔ تمہیں پہچانا ہے
میر تقی میر