دوستی کا چلن رہا ہی نہیں اب زمانے کی وہ ہوا ہی نہیں سچ تو یہ ہے صنم کدے والو دل خدا نے تمہیں دیا ہی نہیں پلٹ آنے سے ہو گیا ثابت نامہ بر تو وہاں گیا ہی نہیں حال یہ ہے کہ ہم غریبوں کا حال تم نے کبھی سنا ہی نہیں کیا چلے زور دشت وحشت کا ہم نے دامن کبھی سیا ہی نہیں غیر بھی ایک دن مریں گے ضرور ان کے حصے میں کیا قضا ہی نہیں اس کی صورت کو دیکھتا ہوں میں میری سیرت وہ دیکھتا ہی نہیں عشق میرا ہے شہر میں مشہور اور تم نے ابھی سنا ہی نہیں قصۂ قیس سن کے فرمایا جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں واسطہ کس کا دیں حفیظؔ ان کو ان بتوں کا کوئی خدا ہی نہیں
حفیظ جالندھری