دکھا رہا ہے انگوٹھا فلک سے تارا مجھے دھکیل دے نہ بلندی سے پھر دوبارا مجھے مرے سوا بھی کوئی قید ہے خرابے میں عجیب طور سے وہ رات بھر پکارا مجھے مرے خلاف کھڑا ہو گیا ہے کون آخر جو روپ دھار کے میرا ہی تیر مارا مجھے کیا جب اس نے تہہ آب میری کشتی کو سمجھ میں بات نہیں آئی کیوں ابھارا مجھے ابھی سمیٹ رہا ہوں میں دھجیاں اپنی نہ جاؤ چھوڑ کے ایسے میں بے سہارا مجھے