Iztirab

Iztirab

دھنک

آج بادل خوب برسا اور برس کر کھل گیا 
گلستاں کی ڈالی ڈالی پتا پتا دھل گیا 
دیکھنا کیا دھل گیا سارے کا سارا آسماں 
اودا اودا نیلا نیلا پیارا پیارا آسماں 
ہٹ گیا بادل کا پردہ مل گئی کرنوں کو راہ 
سلطنت پر اپنی پھر خورشید نے ڈالی نگاہ 
دھوپ میں ہے گھاس پر پانی کے قطروں کی چمک 
مات ہے اس وقت موتی اور ہیرے کی دمک 
دے رہی ہے لطف کیا سرسبز پیڑوں کی قطار 
اور ہری شاخوں پہ ہے رنگین پھولوں کی بہار 
کیا پرندے پھر رہے ہیں چہچہاتے ہر طرف 
راگنی برسات کی خوش ہو کے گاتے ہر طرف 
دیکھنا وہ کیا اچنبھا ہے ارے وہ دیکھنا 
آسماں پر ان درختوں سے پرے وہ دیکھنا 
یہ کوئی جادو ہے یا سچ مچ ہے اک رنگیں کماں 
واہ وا کیسا بھلا لگتا ہے یہ پیارا سماں 
کس مصور نے بھرے ہیں رنگ ایسے خوش نما 
اس کا ہر اک رنگ ہے آنکھوں میں جیسے کھب گیا 
اک جگہ کیسے اکٹھے کر دیے ہیں سات رنگ 
شوخ ہیں ساتوں کے ساتوں اک نہیں ہے مات رنگ 
ہے یہ قدرت کا نظارہ اور کیا کہئے اسے 
بس یہی جی چاہتا ہے دیکھتے رہئے اسے 
ننھے ننھے جمع تھے پانی کے کچھ قطرے وہاں 
ان پہ ڈالا عکس سورج نے بنا دی یہ کماں 
دیکھو دیکھو اب مٹی جاتی ہے وہ پیاری دھنک 
دیکھتے ہی دیکھتے گم ہو گئی ساری دھنک 
پھر ہوا میں مل گئی وہ سب کی سب کچھ بھی نہیں 
آنکھیں مل مل کر نہ دیکھو آؤ اب کچھ بھی نہیں 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *