Iztirab

Iztirab

دھوپ کے دشت میں بے سایہ شجر میں ہم تھے

دھوپ کے دشت میں بے سایہ شجر میں ہم تھے 
منہمک پھر بھی سرابوں کے سفر میں ہم تھے 
منتشر کر چکی آندھی تو یہ معلوم ہوا 
اک بگولے کی طرح ریت کے گھر میں ہم تھے 
تیری آواز کے جادو نے خبردار کیا 
نا سمجھ تھے کہ بلاؤں کے اثر میں ہم تھے 
تا نہ شاکی رہے دریائے ہوس کی کوئی موج 
بادباں جسم کے کھولے کہ بھنور میں ہم تھے 
یہ ترے قرب کا اعجاز ہے ورنہ پہلے 
طاق اتنے کہاں جینے کے ہنر میں ہم تھے 

شہریار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *