دہرا رہا ہوں بات پرانی کہی ہوئی
تصویر تیرے گھر میں تھی میری لگی ہوئی
ان بد نصیب آنکھوں نے دیکھی ہے بار بار
دیوار میں غریب کی خواہش چنی ہوئی
تازہ غزل ضروری ہے محفل کے واسطے
سنتا نہیں ہے کوئی دوبارہ سنی ہوئی
مدت سے کوئی دوسرا رہتا ہے ہم نہیں
دروازے پر ہماری ہے تختی لگی ہوئی
جب تک ہے ڈور ہاتھ میں تب تک کا کھیل ہے
دیکھی تو ہوں گی تم نے پتنگیں کٹی ہوئی
جس کی جدائی نے مجھے شاعر بنا دیا
پڑھتا ہوں میں غزل بھی اسی کی لکھی ہوئی
لگتا ہے جیسے گھر میں نہیں ہوں میں قید ہوں
ملتی ہیں روٹیاں بھی جہاں پر گنی ہوئی
سانسوں کے آنے جانے پہ چلتا ہے کاروبار
چھوتا نہیں ہے کوئی بھی ہانڈی جلی ہوئی
یہ زخم کا نشان ہے جائے گا دیر سے
چھٹتی نہیں ہے جلدی سے مہندی لگی ہوئی
منور رانا