دیکھے گا جو تجھ رو کو سو حیران رہے گا وابستہ ترے مو کا پریشان رہے گا منعم نے بنا ظلم کی رکھ گھر تو بنایا پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہے گا وعدہ تو کیا اس سے دم صبح کا لیکن اس دم تئیں مجھ میں بھی اگر جان رہے گا چھوٹوں کہیں ایذا سے لگا ایک ہی جلاد تا حشر مرے سر پہ یہ احسان رہے گا جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا چمٹے رہیں گے دشت محبت میں سر و تیغ محشر تئیں خالی نہ یہ میدان رہے گا دل دینے کی ایسی حرکت ان نے نہیں کی جب تک جئے گا میرؔ پشیمان رہے گا