دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے خانۂ دل سے زینہار نہ جا کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے لڑتی ہے اس کی چشم شوخ جہاں ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا شور اک آسماں سے اٹھتا ہے سدھ لے گھر کی بھی شعلۂ آواز دود کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے عشق اک میرؔ بھاری پتھر ہے کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے