Iztirab

Iztirab

دیکھ دریا کو کہ طغیانی میں ہے

دیکھ دریا کو کہ طغیانی میں ہے 
تو بھی میرے ساتھ اب پانی میں ہے 
نور یہ اس آخری بوسے کا ہے 
چاند سا کیا تیری پیشانی میں ہے 
میں بھی جلدی میں ہوں کیسے بات ہو 
تو بھی لگتا ہے پریشانی میں ہے 
مدعی سورج کا سارا شہر ہے 
رات یہ کس کی نگہبانی میں ہے 
سارے منظر ایک سے لگنے لگے 
کون شامل میری حیرانی میں ہے 

شہریار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *