رات اس کے سامنے میرے سوا بھی میں ہی تھا
سب سے پہلے میں گیا تھا دوسرا بھی میں ہی تھا
میں مخالف سمت میں چلتا رہا ہوں عمر بھر
اور جو اس تک گیا وہ راستہ بھی میں ہی تھا
سب سے کٹ کر رہ گیا خود میں سمٹ کر رہ گیا
سلسلہ ٹوٹا کہاں سے سوچتا بھی میں ہی تھا
سب سے اچھا کہہ کے اس نے مجھ کو رخصت کر دیا
جب یہاں آیا تو پھر سب سے برا بھی میں ہی تھا
وقت کے محراب میں جو بے سبب جلتا رہا
رات نے مجھ کو بتایا وہ دیا بھی میں ہی تھا
خود سے ملنے کی تمنا پر زوال آنے کے بعد
وہ سمجھتا ہے کہ اس کا آئنا بھی میں ہی تھا
غلام محمد قاصر