Iztirab

Iztirab

رات بھی نیند بھی کہانی بھی

رات بھی نیند بھی کہانی بھی 
ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی 
ایک پیغام زندگانی بھی 
عاشقی مرگ ناگہانی بھی 
اس ادا کا تری جواب نہیں 
مہربانی بھی سرگرانی بھی 
دل کو اپنے بھی غم تھے دنیا میں 
کچھ بلائیں تھیں آسمانی بھی 
منصب دل خوشی لٹانا ہے 
غم پنہاں کی پاسبانی بھی 
دل کو شعلوں سے کرتی ہے سیراب 
زندگی آگ بھی ہے پانی بھی 
شاد کاموں کو یہ نہیں توفیق 
دل غمگیں کی شادمانی بھی 
لاکھ حسن یقیں سے بڑھ کر ہے 
ان نگاہوں کی بد گمانی بھی 
تنگنائے دل ملول میں ہے 
بحر ہستی کی بے کرانی بھی 
عشق ناکام کی ہے پرچھائیں 
شادمانی بھی کامرانی بھی 
دیکھ دل کے نگار خانے میں 
زخم پنہاں کی ہے نشانی بھی 
خلق کیا کیا مجھے نہیں کہتی 
کچھ سنوں میں تری زبانی بھی 
آئے تاریخ عشق میں سو بار 
موت کے دور درمیانی بھی 
اپنی معصومیت کے پردے میں 
ہو گئی وہ نظر سیانی بھی 
دن کو سورج مکھی ہے وہ نو گل 
رات کو ہے وہ رات رانی بھی 
دل بد نام تیرے بارے میں 
لوگ کہتے ہیں اک کہانی بھی 
وضع کرتے کوئی نئی دنیا 
کہ یہ دنیا ہوئی پرانی بھی 
دل کو آداب بندگی بھی نہ آئے 
کر گئے لوگ حکمرانی بھی 
جور کم کم کا شکریہ بس ہے 
آپ کی اتنی مہربانی بھی 
دل میں اک ہوک بھی اٹھی اے دوست 
یاد آئی تری جوانی بھی 
سر سے پا تک سپردگی کی ادا 
ایک انداز ترکمانی بھی 
پاس رہنا کسی کا رات کی رات 
میہمانی بھی میزبانی بھی 
ہو نہ عکس جبین ناز کہ ہے 
دل میں اک نور کہکشانی بھی 
زندگی عین دید یار فراقؔ 
زندگی ہجر کی کہانی بھی 

فراق گورکھپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *