رقص مستی دیکھتے جوش تمنا دیکھتے سامنے لا کر تجھے اپنا تماشا دیکھتے کم سے کم حسن تخیل کا تماشا دیکھتے جلوۂ یوسف تو کیا خواب زلیخا دیکھتے کچھ سمجھ کر ہم نے رکھا ہے حجاب دہر کو توڑ کر شیشے کو پھر کیا رنگ صہبا دیکھتے روز روشن یا شب مہتاب یا صبح چمن ہم جہاں سے چاہتے وہ روئے زیبا دیکھتے قلب پر گرتی تڑپ کر پھر وہی برق جمال ہر بن مو میں وہی آشوب و غوغا دیکھتے صد زماں و صد مکاں و ایں جہاں و آں جہاں تم نہ آ جاتے تو ہم وحشت میں کیا کیا دیکھتے اس طرح کچھ رنگ بھر جاتا نگاہ شوق میں جلوہ خود بیتاب ہو جاتا وہ پردا دیکھتے جن کو اپنی شوخیوں پر آج اتنا ناز ہے وہ کسی دن میری جان ناشکیبا دیکھتے مے کدے میں زندگی ہے شور نوشا نوش ہے مٹ گئے ہوتے اگر ہم جام و مینا دیکھتے
اصغر گونڈوی