رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے پاس ناموس عشق تھا ورنہ کتنے آنسو پلک تک آئے تھے اب جہاں آفتاب میں ہم ہیں یاں کبھو سرو و گل کے سائے تھے وہی سمجھا نہ ورنہ ہم نے تو زخم چھاتی کے سب دکھائے تھے کچھ نہ سمجھے کہ تجھ سے یاروں نے کس توقع پہ دل لگائے تھے فرصت زندگی سے مت پوچھو سانس بھی ہم نہ لینے پائے تھے میرؔ صاحب رلا گئے سب کو کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے