Iztirab

Iztirab

زمیں سے تا بہ فلک دھند کی خدائی ہے

زمیں سے تا بہ فلک دھند کی خدائی ہے 
ہوائے شہر جنوں کیا پیام لائی ہے 
پیا ہے زہر بھی آب حیات بھی لیکن 
کسی نے تشنگیٔ جسم و جاں بجھائی ہے 
یہ کوئی ضد ہے کہ ہے رسم عاشقی ہی یہی 
ہوا کے رخ پہ جو شمع وفا جلائی ہے 
یہ کم نہیں کہ طرف دار ہیں مرے کچھ لوگ 
ہنر کی ورنہ یہاں کس نے داد پائی ہے 
مسافران رہ شوق اور تیز قدم 
کہ چند گام ہی اب منزل جدائی ہے

شہریار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *