دیکھوں جو آسماں سے تو اتنی بڑی زمیں اتنی بڑی زمین پہ چھوٹا سا ایک شہر چھوٹے سے ایک شہر میں سڑکوں کا ایک جال سڑکوں کے جال میں چھپی ویران سی گلی ویراں گلی کے موڑ پہ تنہا سا اک شجر تنہا شجر کے سائے میں چھوٹا سا اک مکان چھوٹے سے اک مکان میں کچی زمیں کا صحن کچی زمیں کے صحن میں کھلتا ہوا گلاب کھلتے ہوئے گلاب میں مہکا ہوا بدن مہکے ہوئے بدن میں سمندر سا ایک دل اس دل کی وسعتوں میں کہیں کھو گیا ہوں میں یوں ہے کہ اس زمیں سے بڑا ہو گیا ہوں میں