سامنے ان کے تڑپ کر اس طرح فریاد کی میں نے پوری شکل دکھلا دی دل ناشاد کی اب یہی ہے وجہ تسکیں خاطر ناشاد کی زندگی میں نے دیار حسن میں برباد کی ہوش پر بجلی گری آنکھیں بھی خیرہ ہو گئیں تم تو کیا تھے، اک جھلک سی تھی تمہاری یاد کی چل دیا مجنوں تو صحرا سے کسی جانب مگر اک صدا گونجی ہوئی ہے نالہ و فریاد کی نغمۂ پر درد چھیڑا میں نے اس انداز سے خود بہ خود مجھ پر نظر پڑنے لگی صیاد کی دل ہوا مجبور جس دم اشک حسرت بن گیا روح جب تڑپی تو صورت بن گئی فریاد کی اس حریم قدس میں کیا لفظ و معنی کا گزر پھر بھی سب باتیں پہنچتی ہیں لب فریاد کی تمتما اٹھے وہ عارض میرے عرض شوق پر حسن جاگ اٹھا وہیں جب عشق نے فریاد کی آشیاں میں اب کسی صورت نہیں پڑتا ہے چین تھی نظر تاثیر میں ڈوبی ہوئی صیاد کی شعر میں رنگینی جوش تخیل چاہیئے مجھ کو اصغرؔ کم ہے عادت نالہ و فریاد کی
اصغر گونڈوی