سب کو اپنی طرح سمجھتی ہے یار تو بھی نہ کتنی بھولی ہے سرخ دیکھے ہیں میں نے لب اس کے ایسا لگتا ہے خون پیتی ہے لڑ رہی ہے وہ بے سبب مجھ سے شکر ہے عشق اب بھی باقی ہے اس کو سلجھانے میں لگے ہیں سب شاعری زلف یا پہیلی ہے کل تلک میں ہی جس کا سب کچھ تھا آج وہ نام سے بھی چڑھتی ہے جاتے جاتے وہ کہہ رہی تھی مجھے کیا کروں یہ خدا کی مرضی ہے موت تو سر پہ ہے کھڑی کب سے بیٹھیے آپ کرسی خالی ہے