Iztirab

Iztirab

ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں

ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں 
شب فرقت بہت گھبرا رہا ہوں 
ترے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہوں 
جہاں کو بھی سمجھتا جا رہا ہوں 
یقیں یہ ہے حقیقت کھل رہی ہے 
گماں یہ ہے کہ دھوکے کھا رہا ہوں 
اگر ممکن ہو لے لے اپنی آہٹ 
خبر دو حسن کو میں آ رہا ہوں 
حدیں حسن و محبت کی ملا کر 
قیامت پر قیامت ڈھا رہا ہوں 
خبر ہے تجھ کو اے ضبط محبت 
ترے ہاتھوں میں لٹتا جا رہا ہوں 
اثر بھی لے رہا ہوں تیری چپ کا 
تجھے قائل بھی کرتا جا رہا ہوں 
بھرم تیرے ستم کا کھل چکا ہے 
میں تجھ سے آج کیوں شرما رہا ہوں 
انہیں میں راز ہیں گلباریوں کے 
میں جو چنگاریاں برسا رہا ہوں 
جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے 
وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں 
ترے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس 
کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں 
حد‌‌ جور‌ و کرم سے بڑھ چلا حسن 
نگاہ یار کو یاد آ رہا ہوں 
جو الجھی تھی کبھی آدم کے ہاتھوں 
وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں 
محبت اب محبت ہو چلی ہے 
تجھے کچھ بھولتا سا جا رہا ہوں 
اجل بھی جن کو سن کر جھومتی ہے 
وہ نغمے زندگی کے گا رہا ہوں 
یہ سناٹا ہے میرے پاؤں کی چاپ 
فراقؔ اپنی کچھ آہٹ پا رہا ہوں 

فراق گورکھپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *