سر راہ چند انتظاری رہے
بھلا کب تلک بے قراری رہے
رہا ہی کئے آنسو پلکوں پہ شب
کہاں تک ستارہ شماری رہے
کہیں خشک ہو چشمۂ چشم بھی
لہو منہ پہ تا چند جاری رہے
کہا بوسہ دے کر سفر جب چلا
کہ میری بھی یہ یادگاری رہے
بس اب رہ چکی جان غم ناک بھی
جو ایسی ہی تن کی نزاری رہے
تسلی نہ ہو دل اگر یار سے
ہمیں سالہا ہم کناری رہے
ترے ہیں دعا گو سنا خوب ہی
فقیروں کی گر گوش داری رہے
شب وصل تھی یا شب تیغ تھی
کہ لڑتے ہی وے رات ساری رہے
کریں خواب ہمسائے کیونکر کہ یاں
بلا شور و فریاد و زاری رہے
پھرا کرتے ہیں خوار گلیوں میں ہم
کہاں تک یہ بے اعتباری رہے
کج ابرو ان اطفال میں ہے عجب
جو میرؔ آبرو بھی تمہاری رہے
میر تقی میر