Iztirab

Iztirab

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں 
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں 
دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں 
لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں 
مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست 
آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں 
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں 
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں 
آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا 
آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں 
بات یہ ہے کہ سکون دل وحشی کا مقام 
کنج زنداں بھی نہیں وسعت صحرا بھی نہیں 
ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں 
تو نے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں 
آہ یہ مجمع احباب یہ بزم خاموش 
آج محفل میں فراقؔ سخن آرا بھی نہیں 
یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور 
یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں 
یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق 
مگر اے دوست کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں 
فطرت حسن تو معلوم ہے تجھ کو ہمدم 
چارہ ہی کیا ہے بجز صبر سو ہوتا بھی نہیں 
منہ سے ہم اپنے برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ 
ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں 

فراق گورکھپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *