سنیو جب وہ کبھو سوار ہوا تا بہ روح الامیں شکار ہوا اس فریبندہ کو نہ سمجھے آہ ہم نے جانا کہ ہم سے یار ہوا نالہ ہم خاکساروں کا آخر خاطر عرش کا غبار ہوا جو نہ کہنا تھا سو بھی میں نے کہا دل کی بے طاقتی سے خوار ہوا مر چلے بے قرار ہو کر ہم اب تو تیرے تئیں قرار ہوا پھر گیا ہے زمانہ کیا کہ مجھے ہوتے خوار ایک روزگار ہوا وہ جو خنجر بکف نظر آیا میرؔ سو جان سے نثار ہوا