فتنۂ خفتہ جگائے اس گھڑی کس کی مجال قید ہیں شہزادیاں کوئی نہیں پرسان حال ان غریبوں کی مدد پر کوئی آمادہ نہیں ایک شاعر ہے یہاں لیکن وہ شہزادہ نہیں آہوؤں کی سرمگیں پلکیں فضا پر حکمراں چھائی ہیں ارض و سما پر آہنیں سی جالیاں دور سے کوہسار و وادی پر یہ ہوتا ہے گماں اونٹ ہیں بیٹھے ہوئے اترا ہوا ہے کارواں یا اثر ہیں آسمان پیر پر برسات کے خیمۂ بوسیدہ میں پیوند ہیں بانات کے اور اس خیمے کے اندر زندگی سوئی ہوئی تیرگی سوئی ہوئی تابندگی سوئی ہوئی اے حفیظؔ ان نیند کے ماتوں کی منزل سے نکل کام ہے درپیش دام دیدہ و دل سے نکل دیدہ و دل کو بھی غفلت کے شبستاں سے نکال یہ جو خاموشی کی زنجیریں ہیں ان کو توڑ ڈال صبح کرنے کے لیے پھر ہاو ہو درکار ہے شکر کر سوتی ہوئی دنیا میں تو بیدار ہے
حفیظ جالندھری