Iztirab

Iztirab

شاعر

فتنۂ خفتہ جگائے اس گھڑی کس کی مجال 
قید ہیں شہزادیاں کوئی نہیں پرسان حال 
ان غریبوں کی مدد پر کوئی آمادہ نہیں 
ایک شاعر ہے یہاں لیکن وہ شہزادہ نہیں 
آہوؤں کی سرمگیں پلکیں فضا پر حکمراں 
چھائی ہیں ارض و سما پر آہنیں سی جالیاں 
دور سے کوہسار و وادی پر یہ ہوتا ہے گماں 
اونٹ ہیں بیٹھے ہوئے اترا ہوا ہے کارواں 
یا اثر ہیں آسمان پیر پر برسات کے 
خیمۂ بوسیدہ میں پیوند ہیں بانات کے 
اور اس خیمے کے اندر زندگی سوئی ہوئی 
تیرگی سوئی ہوئی تابندگی سوئی ہوئی 
اے حفیظؔ ان نیند کے ماتوں کی منزل سے نکل 
کام ہے درپیش دام دیدہ و دل سے نکل 
دیدہ و دل کو بھی غفلت کے شبستاں سے نکال 
یہ جو خاموشی کی زنجیریں ہیں ان کو توڑ ڈال 
صبح کرنے کے لیے پھر ہاو ہو درکار ہے 
شکر کر سوتی ہوئی دنیا میں تو بیدار ہے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *