شجر ہیں اب ثمر آثار میرے
چلے آتے ہیں دعویدار میرے
مہاجر ہیں نہ اب انصار میرے
مخالف ہیں بہت اس بار میرے
یہاں اک بوند کا محتاج ہوں میں
سمندر ہیں سمندر پار میرے
ابھی مردوں میں روحیں پھونک ڈالیں
اگر چاہیں تو یہ بیمار میرے
میں آ کر دشمنوں میں بس گیا ہوں
یہاں ہمدرد ہیں دو چار میرے
ہوائیں اوڑھ کر سویا تھا دشمن
گئے بے کار سارے وار میرے
ہنسی میں ٹال دینا تھا مجھے بھی
خفا کیوں ہو گئے سرکار میرے
تصور میں نہ جانے کون آیا
مہک اٹھے در و دیوار میرے
تمہارا نام دنیا جانتی ہے
بہت رسوا ہیں اب اشعار میرے
بھنور میں رک گئی ہے ناؤ میری
کنارے رہ گئے اس پار میرے
میں خود اپنی حفاظت کر رہا ہوں
ابھی سوئے ہیں پہرے دار میرے
راحت اندوری