شکستہ پر جنوں کو آزمائیں گے نہیں کیا اڑانوں کے لیے پر پھڑپھڑائیں گے نہیں کیا ہوائیں مہرباں تھیں منتقم کیوں ہو گئی ہیں نگہ واران ساحل کچھ بتائیں گے نہیں کیا کوئی ہنستا ہوا سورج پس دیوار تاریک فروزاں ہو تو دیواریں گرائیں گے نہیں کیا وہی پہلی سی ارزانی سر بازار پندار نظر آئے تو ہم قیمت بڑھائیں گے نہیں کیا سواد تشنگی کے پار اک مواج دریا غزل خواں ہو تو پھر تیشے اٹھائیں گے نہیں کیا بدلتے موسموں کی دھول ہوتے راستوں کو تھکے ہارے مسافر یاد آئیں گے نہیں کیا