Iztirab

Iztirab

شکوہ نہ چاہیئے کہ تقاضا نہ چاہیئے

شکوہ نہ چاہیئے کہ تقاضا نہ چاہیئے
جب جان پر بنی ہو تو کیا کیا نہ چاہیئے
ساقی تری نگاہ کو پہچانتا ہوں میں
مجھ سے فریب ساغر و مینا نہ چاہیئے
یہ آستان یار ہے صحن حرم نہیں
جب رکھ دیا ہے سر تو اٹھانا نہ چاہیئے
خود آپ اپنی آگ میں جلنے کا لطف ہے
اہل تپش کو آتش سینا نہ چاہیئے
کیا کم ہیں ذوق دید کی جلوہ فرازیاں
آنکھوں کو انتظار تماشا نہ چاہیئے
وہ بارگاہ حسن ادب کا مقام ہے
جز درد و اشتیاق تقاضا نہ چاہیئے
تیغ ادا میں اس کے ہے اک روح تازگی
ہم کشتگان شوق کو مر جانا چاہیئے
ہستی کے آب و رنگ کی تعبیر کچھ تو ہو
مجھ کو فقط یہ خواب زلیخا نہ چاہیئے
اس کے سوا تو معنئ مجنوں بھی کچھ نہیں
ایسا بھی ربط صورت لیلی نہ چاہیئے
ٹھہرے اگر تو منزل مقصود پھر کہاں
ساغر بکف گرے تو سنبھلنا نہ چاہیئے
اک جلوہ خال و خط سے بھی آراستہ سہی
داماندگی ذوق تماشہ نہ چاہیئے
سب اہل دید بے خود و حیران و مست ہیں
کوئی اگر نہیں ہے تو پروا نہ چاہیئے
اصغرؔ صنم پرست سہی پھر کسی کو کیا
اہل حرم کو کاوش بے جا نہ چاہیئے

اصغر گونڈوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *