Iztirab

Iztirab

شہر جنوں میں کل تلک جو بھی تھا سب بدل گیا

شہر جنوں میں کل تلک جو بھی تھا سب بدل گیا 
مرنے کی خو نہیں رہی جینے کا ڈھب بدل گیا 
پل میں ہوا مٹا گئی سارے نقوش نور کے 
دیکھا ذرا سی دیر میں منظر شب بدل گیا 
میری پرانی عرض پر غور کیا نہ جائے گا 
یوں ہے کہ اس کی بزم میں طرز طلب بدل گیا 
ساعت خوب وصل کی آنی تھی آ نہیں سکی 
وہ بھی تو وہ نہیں رہا میں بھی تو اب بدل گیا 
دوری کی داستان میں یہ بھی کہیں پہ درج ہو 
تشنہ لبی تو ہے وہی چشمۂ لب بدل گیا 
میرے سوا ہر ایک سے دنیا یہ پوچھتی رہی 
مجھ سا جو ایک شخص تھا پتھر میں کب بدل گیا 

شہریار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *