صحرا پہ برا وقت مرے یار پڑا ہے دیوانہ کئی روز سے بیمار پڑا ہے سب رونق صحرا تھی اسی پگلے کے دم سے اجڑا ہوا دیوانے کا دربار پڑا ہے آنکھوں سے ٹپکتی ہے وہی وحشت صحرا کاندھے بھی بتاتے ہیں بڑا بار پڑا ہے دل میں جو لہو جھیل تھی وہ سوکھ چکی ہے آنکھوں کا دو آبا ہے سو بے کار پڑا ہے تم کہتے تھے دن ہو گئے دیکھا نہیں اس کو لو دیکھ لو یہ آج کا اخبار پڑا ہے اوڑھے ہوئے امید کی اک میلی سی چادر دروازۂ بخشش پہ گنہ گار پڑا ہے اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ بہت ہوں مہنگائی کے موسم میں یہ تیوہار پڑا ہے