ضبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز ہے گریبان پارہ پارہ ہنوز آتش دل نہیں بجھی شاید قطرۂ اشک ہے شرارہ ہنوز خاک میں ہے وہ طفل اشک اس بن چشم ہے جس کا گاہوارہ ہنوز ایک بار آ کے پھر نہیں آیا عمر کی طرح وہ دوبارہ ہنوز اشک جھمکا ہے جب نہ نکلا تھا چرخ پر صبح کا ستارہ ہنوز کب کی توبہ کی میرؔ نے لیکن ہے بتر از شراب خوارہ ہنوز لب پہ آئی ہے جان کب کی ہے اس کی موقوف یک اشارہ ہنوز عمر گزری دوائیں کرتے میرؔ درد دل کا ہوا نہ چارہ ہنوز