Iztirab

Iztirab

طوفانی کشتی

دریا چڑھاؤ پر ہے 
اور بوجھ ناؤ پر ہے 
پہنائے آب سارا 
ہے کوچ کا اشارا 
ہوش آزما نظارا 
موجوں کے منہ میں کف ہے 
اک شور ہر طرف ہے 
مرگ آفریں ہے دھارا 
اور دور ہے کنارا 
کوئی نہیں سہارا 
تیغ آزما ہیں لہریں 
تیغیں ہیں یا ہیں لہریں 
توبہ ہوا کی تیزی 
موج فنا کی تیزی 
ہے کس بلا کی تیزی 
تدبیر ناخدا کیا 
چپو کا آسرا کیا 
گرداب پڑ رہے ہیں 
کشتی سے لڑ رہے ہیں 
تختے اکھڑ رہے ہیں 
نغموں کا جوش خاموش 
سب ناؤ نوش خاموش 
ہے یہ برات کس کی 
نو شاہ اور براتی 
لوٹے ہیں لے کے ڈولی 
مایوس ہیں نگاہیں 
رقصاں لبوں پہ آہیں 
ڈولی میں حور پیکر 
کیا کانپتی ہے تھرتھر 
لیکن ہے مہر لب پر 
دولہا کے سر پہ صحرا 
لیکن اداس چہرہ 
عشرت کی آرزو تھی 
الفت کی جستجو تھی 
امید رو بہ رو تھی 
یہ انقلاب کیا ہے 
آغوش مرگ وا ہے 
افسوس یا الٰہی 
کیا آ گئی تباہی 
قسمت کی کم نگاہی 
دل سرد ہو رہے ہیں 
رخ زرد ہو رہے ہیں 
اس محشر بلا میں 
اس لہجۂ فنا میں 
اس سیل باد پا میں 
سب اہل یاس گم ہیں 
ہوش و حواس گم ہیں 
کچھ محو ہیں دعا میں 
کچھ نالہ و بکا میں 
کچھ شکوۂ خدا میں 
بیٹھی ہے ایک بیوہ 
ہے صبر جس کا شیوہ 
دل ہاتھ سے دبائے 
بچہ گلے لگائے 
تیر امید کھائے 
یہ باپ کی نشانی 
سرمایۂ جوانی 
اک دن جوان ہوگا 
اماں کا مان ہوگا 
حق مہربان ہوگا 
اک نوجواں بد اختر 
بھاگا ہے گھر سے لڑ کر 
چھوڑے تھے باپ ماں بھی 
بیوی بھی اور مکاں بھی 
اب چھوڑتا ہے جاں بھی 
اے کاش میں نہ آتا 
اے کاش لوٹ جاتا 
اے طبع خود سر افسوس 
اے طیش تجھ پر افسوس 
افسوس یکسر افسوس 
یہ دیو‌‌ زاد موجیں 
یہ نو نہاد موجیں 
آیا پھر ایک ریلا 
کشتی بنی ہے تنکا 
بس ہو چلا صفایا 
تدبیر رو رہی ہے 
تقدیر سو رہی ہے 
ملاح تیر نکلے 
دریا میں پیر نکلے 
افسوس غیر نکلے 
طوفان غم بہا ہے 
فریاد کی صدا ہے 
ہے کون جو سنبھالے 
کشتی ترے حوالے 
یا رب تو ہی بچا لے 
اے ناؤ کے کھویا 
لگ جائے پار نیا 
بندوں کا تو خدا ہے 
اور تو ہی ناخدا ہے 
تیرا ہی آسرا ہے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *