دریا چڑھاؤ پر ہے اور بوجھ ناؤ پر ہے پہنائے آب سارا ہے کوچ کا اشارا ہوش آزما نظارا موجوں کے منہ میں کف ہے اک شور ہر طرف ہے مرگ آفریں ہے دھارا اور دور ہے کنارا کوئی نہیں سہارا تیغ آزما ہیں لہریں تیغیں ہیں یا ہیں لہریں توبہ ہوا کی تیزی موج فنا کی تیزی ہے کس بلا کی تیزی تدبیر ناخدا کیا چپو کا آسرا کیا گرداب پڑ رہے ہیں کشتی سے لڑ رہے ہیں تختے اکھڑ رہے ہیں نغموں کا جوش خاموش سب ناؤ نوش خاموش ہے یہ برات کس کی نو شاہ اور براتی لوٹے ہیں لے کے ڈولی مایوس ہیں نگاہیں رقصاں لبوں پہ آہیں ڈولی میں حور پیکر کیا کانپتی ہے تھرتھر لیکن ہے مہر لب پر دولہا کے سر پہ صحرا لیکن اداس چہرہ عشرت کی آرزو تھی الفت کی جستجو تھی امید رو بہ رو تھی یہ انقلاب کیا ہے آغوش مرگ وا ہے افسوس یا الٰہی کیا آ گئی تباہی قسمت کی کم نگاہی دل سرد ہو رہے ہیں رخ زرد ہو رہے ہیں اس محشر بلا میں اس لہجۂ فنا میں اس سیل باد پا میں سب اہل یاس گم ہیں ہوش و حواس گم ہیں کچھ محو ہیں دعا میں کچھ نالہ و بکا میں کچھ شکوۂ خدا میں بیٹھی ہے ایک بیوہ ہے صبر جس کا شیوہ دل ہاتھ سے دبائے بچہ گلے لگائے تیر امید کھائے یہ باپ کی نشانی سرمایۂ جوانی اک دن جوان ہوگا اماں کا مان ہوگا حق مہربان ہوگا اک نوجواں بد اختر بھاگا ہے گھر سے لڑ کر چھوڑے تھے باپ ماں بھی بیوی بھی اور مکاں بھی اب چھوڑتا ہے جاں بھی اے کاش میں نہ آتا اے کاش لوٹ جاتا اے طبع خود سر افسوس اے طیش تجھ پر افسوس افسوس یکسر افسوس یہ دیو زاد موجیں یہ نو نہاد موجیں آیا پھر ایک ریلا کشتی بنی ہے تنکا بس ہو چلا صفایا تدبیر رو رہی ہے تقدیر سو رہی ہے ملاح تیر نکلے دریا میں پیر نکلے افسوس غیر نکلے طوفان غم بہا ہے فریاد کی صدا ہے ہے کون جو سنبھالے کشتی ترے حوالے یا رب تو ہی بچا لے اے ناؤ کے کھویا لگ جائے پار نیا بندوں کا تو خدا ہے اور تو ہی ناخدا ہے تیرا ہی آسرا ہے
حفیظ جالندھری