Iztirab

Iztirab

عرض ہنر بھی وجہ شکایات ہو گئی

عرض ہنر بھی وجہ شکایات ہو گئی 
چھوٹا سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی 
دشنام کا جواب نہ سوجھا بجز سلام 
ظاہر مرے کلام کی اوقات ہو گئی 
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف 
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی 
یا ضربت خلیل سے بت خانہ چیخ اٹھا 
یا پتھروں کو معرفت ذات ہو گئی 
یاران بے بساط کہ ہر بازئ حیات 
کھیلے بغیر ہار گئے مات ہو گئی 
بے رزم دن گزار لیا رتجگا مناؤ 
اے اہل بزم جاگ اٹھو رات ہو گئی 
نکلے جو میکدے سے تو مسجد تھا ہر مقام 
ہر گام پر تلافئ مافات ہو گئی 
حد عمل میں تھی تو عمل تھی یہی شراب 
رد عمل بنی تو مکافات ہو گئی 
اب شکر ناقبول ہے شکوہ فضول ہے 
جیسے بھی ہو گئی بسر اوقات ہو گئی 
وہ خوش نصیب تم سے ملاقات کیوں کرے 
دربان ہی سے جس کی مدارات ہو گئی 
ہر ایک رہنما سے بچھڑنا پڑا مجھے 
ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی گھات ہو گئی 
یاروں کی برہمی پہ ہنسی آ گئی حفیظؔ 
یہ مجھ سے ایک اور بری بات ہو گئی 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *