عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں اس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں بیکلی دل ہی کی تماشا ہے برق میں ایسے اضطراب کہاں خط کے آئے پہ کچھ کہے تو کہے ابھی مکتوب کا جواب کہاں گریۂ شب سے سرخ ہیں آنکھیں مجھ بلانوش کو شراب کہاں ہستی اپنی ہے بیچ میں پردہ ہم نہ ہوویں تو پھر حجاب کہاں عشق ہے عاشقوں کے جلنے کو یہ جہنم میں ہے عذاب کہاں محو ہیں اس کتابی چہرے کے عاشقوں کو سر کتاب کہاں داغ رہنا دل و جگر کا دیکھ جلتے ہیں اس طرح کباب کہاں عشق کا گھر ہے میرؔ سے آباد ایسے پھر خانماں خراب کہاں