Iztirab

Iztirab

عشق میں چھیڑ ہوئی دیدۂ تر سے پہلے

عشق میں چھیڑ ہوئی دیدۂ تر سے پہلے 
غم کے بادل جو اٹھے تو یہیں پر سے پہلے 
اب جہنم میں لیے جاتی ہے دل کی گرمی 
آگ چمکی تھی یہ اللہ کے گھر سے پہلے 
ہاتھ رکھ رکھ کے وہ سینے پہ کسی کا کہنا 
دل سے درد اٹھتا ہے پہلے کہ جگر سے پہلے 
دل کو اب آنکھ کی منزل میں بٹھا رکھیں گے 
عشق گزرے گا اسی راہ گزر سے پہلے 
وہ ہر وعدے سے انکار بہ طرز اقرار 
وہ ہر اک بات پہ ہاں لفظ مگر سے پہلے 
میرے قصے پہ وہی روشنی ڈالے شاید 
شمع کم مایہ جو بجھتی ہے سحر سے پہلے 
چاک دامانی گل کا ہے گلہ کیا بلبل 
کہ الجھتا ہے یہ خود باد سحر سے پہلے 
کچھ سمجھ دار تو ہیں نعش اٹھانے والے 
لے چلے ہیں مجھے اس راہ گزر سے پہلے 
دل نہیں ہارتے یوں بازی الفت میں حفیظؔ 
کھیل آغاز ہوا کرتا ہے سر سے پہلے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *