Iztirab

Iztirab

عشق نے حسن کی بیداد پہ رونا چاہا

عشق نے حسن کی بیداد پہ رونا چاہا 
تخم احساس وفا سنگ میں بونا چاہا 
آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر 
نا خدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا 
سنگ دل کیوں نہ کہیں بت کدے والے مجھ کو 
میں نے پتھر کا پرستار نہ ہونا چاہا 
حضرت شیخ نہ سمجھے مرے دل کی قیمت 
لے کے تسبیح کے رشتے میں پرونا چاہا 
کوئی مذکور نہ تھا غیر کا لیکن تم نے 
باتوں باتوں میں یہ نشتر بھی چبھونا چاہا 
دیدۂ تر سے بھی سرزد ہوا اک جرم عظیم 
حشر میں نامۂ اعمال کو دھونا چاہا 
مرتے مرتے بھی توقع رہی دل داری کی 
رکھ کے سر زانوئے تقدیر پہ سونا چاہا 
ہائے کس درد سے کی ضبط کی تلقین مجھے 
ہنس پڑے دوست جو میں نے کبھی رونا چاہا 
جنس شہرت بہت ارزاں تھی مگر میں نے حفیظؔ 
دولت درد کو بے کار نہ کھونا چاہا 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *