عشق کا پھول تو صحرا میں کھلا کرتا ہے ایک اک ذرہ جہاں رشک و دعا کرتا ہے یہ برا وقت ہی نازل ہوا سر پر ورنہ اپنے خوابوں سے بھلا کوئی ڈرا کرتا ہے زخم پل بھر کا دوا روز دعا برسوں تک یوں علاج غم محبوب ہوا کرتا ہے دل کو صحرا دیا آنکھوں کو سمندر بخشا شعبدے ایسے وہ دم باز کیا کرتا ہے خود کو تنہا نہ سمجھ جام اٹھا لے زاہدؔ ایسا ساتھی تو مقدر سے ملا کرتا ہے