عشق کی رہ نہ چل خبر ہے شرط اول گام ترک سر ہے شرط دعویٔ عشق یوں نہیں صادق زردیٔ رنگ و چشم تر ہے شرط خامی جاتی ہے کوئی گھر بیٹھے پختہ کاری کے تیں سفر ہے شرط قلب یعنی کہ دل عجب زر ہے اس کی نقادی کو نظر ہے شرط قصد حج ہے تو شیخ کو لے چل کعبے جانے کو یہ بھی خر ہے شرط حق کے دینے کو چاہیے ہے کیا یاں نہ اسباب نے ہنر ہے شرط دل کا دینا ہے سہل کیا اے میرؔ عاشقی کرنے کو جگر ہے شرط