Iztirab

Iztirab

عشق کے ہاتھوں یہ ساری عالم آرائی ہوئی

عشق کے ہاتھوں یہ ساری عالم آرائی ہوئی 
عشق کے ہاتھوں قیامت بھی ہے اب آئی ہوئی 
اللہ اللہ کیا ہوا انجام کار آرزو 
توبہ توبہ کس قدر ہنگامہ آرائی ہوئی 
کیا ہے میرا حاصل گل چینیٔ باغ جمال 
آرزو کی چند کلیاں وہ بھی مرجھائی ہوئی 
چھوڑ بھی یہ سلسلہ او نامراد انتظار 
موت بیٹھی ہے تیرے بالیں یہ اکتائی ہوئی 
شہر مایوسی میں اک چھوٹی سی امید وصال 
اجنبی کی شکل میں پھرتی ہے گھبرائی ہوئی 
کر لیا ہے عقد اردوئے معلیٰ سے حفیظؔ 
قلعۂ دہلی سے آئی تھی یہ ٹھکرائی ہوئی 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *