Iztirab

Iztirab

عشق ہے اک کیف پنہانی مگر رنجور ہے

عشق ہے اک کیف پنہانی مگر رنجور ہے
حسن بے پردا نہیں ہوتا مگر دستور ہے
خستگی نے کر دیا اس کو رگ جاں سے قریب
جستجو ظالم کہے جاتی تھی منزل دور ہے
لے اسی ظلمت کدہ میں اس سے محرومی کی داد
اس سے آگے اے دل مضطر حجاب نور ہے
لب پہ موج حسن جب چمکے تبسم نام ہو
رب ارنی کہہ کے چیخ اٹھوں تو برق طور ہے
نور آنکھوں میں اسی کا جلوہ خود نور محیط
دید کیا ہے کچھ تلاطم میں ہجوم نور ہے
آنکھ ہے جب محو حیرت تو نمایاں ہے وہی
فکر ہو جب کار فرما تو وہی مستور ہے
دیکھتا ہوں میں کہ ہے بحر حقیقت جوش پر
جو حباب اٹھ اٹھ کے مٹتا ہے سر منصور ہے

اصغر گونڈوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *