غیرت عشق سلامت تھی انا زندہ تھی
وہ بھی دن تھے کہ رہ و رسم وفا زندہ تھی
قیس کو دوش نہ دو رکھیو نہ فرہاد کو نام
انہی لوگوں سے محبت کی ادا زندہ تھی
شہر بیمار کے ہر کوچہ و بام و در پر
ہم بھی مرتے تھے کہ جب خلق خدا زندہ تھی
بجھ گئیں شمعیں تو دم توڑ گئے جھونکے بھی
جس طرح زہر رقابت سے ہوا زندہ تھی
یاد ایام کہ صحرائے محبت میں فرازؔ
جرس قافلۂ دل کی صدا زندہ تھی