قیامت تھا سماں اس خشمگیں پر
کہ تلواریں چلیں ابرو کی چیں پر
نہ دیکھا آخر اس آئینہ رو نے
نظر سے بھی نگاہ واپسیں پر
گئے دن عجز و نالہ کے کہ اب ہے
دماغ نالہ چرخ ہفتمیں پر
ہوا ہے ہاتھ گلدستہ ہمارا
کہ داغ خوں بہت ہے آستیں پر
پر افشانی قفس ہی کی بہت ہے
کہ پرواز چمن قابل نہیں پر
خدا جانے کہ کیا خواہش ہے جی کو
نظر اپنی نہیں ہے مہر و کیں پر
ق
جگر میں اپنے باقی روتے روتے
اگرچہ کچھ نہیں اے ہم نشیں پر
کبھو جو آنکھ سے چلتے ہیں آنسو
تو بھر جاتا ہے پانی سب زمیں پر
قدم دشت محبت میں نہ رکھ میرؔ
کہ سر جاتا ہے گام اولیں پر
میر تقی میر