لبوں پہ ہے جو تبسم تو آنکھ پر نم ہے شعور غم کا یہ عالم عجیب عالم ہے گزر نہ جادۂ امکاں سے بے خیالی میں یہیں کہیں تری جنت یہیں جہنم ہے بھٹک رہا ہے دل امروز کے اندھیروں میں نشان منزل فردا بہت ہی مبہم ہے بڑھا دیا ہے اسیروں کی خستہ حالی نے قفس سے تا بہ چمن ورنہ فاصلہ کم ہے ابھی نہیں کسی عالم میں دل ٹھہرنے کا ابھی نظر میں تری انجمن کا عالم ہے کہاں یہ زندگی ہرزہ گرد لے آئی نہ رہ گزار طرب ہے نہ جادۂ غم ہے کچھ ایسے ہم نے ترے غم کی پرورش کی ہے کہ جیسے مقصد ہستی فقط ترا غم ہے