لفظ تیری یاد کے سب بے صدا کر آئے ہیں
سارے منظر آئنوں سے خود مٹا کر آئے ہیں
جل چکے ساری مہکتی خواہشوں کے جب گلاب
موسموں کے دکھ نگاہوں میں جلا کر آئے ہیں
ایک لمحے میں کئی صدیوں کے ناطے توڑ کر
سوچتے ہیں اپنے ہاتھوں سے یہ کیا کر آئے ہیں
راستے تو کھو چکے تھے اپنی ہر پہچان تک
ہم جنازے منزلوں کے خود اٹھا کر آئے ہے
سارے رشتے جھوٹ ہیں سارے تعلق پر فریب
پھر بھی سب قائم رہیں یہ بد دعا کر آئے ہیں
ہر چھلکتے اشک میں تصویر جھلکے گی تری
نقش پانی پر ترا انمٹ بنا کر آئے ہیں
موت سے پہلے جہاں میں چند سانسوں کا عذاب
زندگی جو قرض تیرا تھا ادا کر آئے ہیں
سارے شکوے بھول کر آؤ ملیں حیدرؔ انہیں
وہ گئے لمحوں کو پھر واپس بلا کر آئے ہیں
حیدر قریشی