لمحۂ تلخیٔ گفتار تلک لے آیا وہ مجھے اپنے ہی معیار تلک لے آیا کیا رکھے اس سے کوئی سلسلۂ گفت و شنید گھر کی باتوں کو جو بازار تلک لے آیا میں نے جو بات بھروسے پہ کہی تھی اس سے وہ اسے سرخیٔ اخبار تلک لے آیا گھر میں جب کچھ نہ بچا اس کی اعانت کے لیے میں اٹھا کر در و دیوار تلک لے آیا اس کی آنکھوں میں عجب سحر تھا میں جس کے سبب دل کی باتیں لب اظہار تلک لے آیا وہ جو قائل ہی نہ تھا میری محبت کا اسے رفتہ رفتہ حد اقرار تلک لے آیا میرے ہر جھوٹ کو دنیا نے سراہا لیکن ایک سچ مرحلۂ دار تلک لے آیا