متاع زیست کیا ہم زیست کا حاصل سمجھتے ہیں جسے سب درد کہتے ہیں اسے ہم دل سمجھتے ہیں اسی سے دل اسی سے زندگی دل سمجھتے ہیں مگر حاصل سے بڑھ کر سعی بے حاصل سمجھتے ہیں کبھی سنتے تھے ہم یہ زندگی ہے وہم و بے معنی مگر اب موت کو بھی خطرہ باطل سمجھتے ہیں بہت سمجھے ہوئے ہے شیخ راہ و رسم منزل کو یہاں منزل کو بھی ہم جادہ منزل سمجھتے ہیں ابھرنا ہو جہاں جی چاہتا ہے ڈوب مرنے کو جہاں اٹھتی ہوں موجیں ہم وہاں ساحل سمجھتے ہیں کوئی سرگشتہ راہ طریقت اس کو کیا جانے یہاں افتادگی کو حاصل منزل سمجھتے ہیں تماشا ہے نیاز و ناز کی باہم کشاکش کا میں ان کا دل سمجھتا ہوں وہ میرا دل سمجھتے ہیں عبث ہے دعوئ عشق و محبت خام کاروں کو یہ غم دیتے ہیں جس کو جوہر قابل سمجھتے ہیں غم لا انتہا سعی مسلسل شوق بے پایاں مقام اپنا سمجھتے ہیں نہ ہم منزل سمجھتے ہیں
اصغر گونڈوی