Iztirab

Iztirab

مجاز کیسا کہاں حقیقت ابھی تجھے کچھ خبر نہیں ہے

مجاز کیسا کہاں حقیقت ابھی تجھے کچھ خبر نہیں ہے
یہ سب ہے اک خواب کی سی حالت، جو دیکھتا ہے سحر نہیں ہے
شمیم گلشن نسیم صحرا شعاع خورشید موج دریا
ہر ایک گرم سفر ہے ان میں میرا کوئی ہم سفر نہیں ہے
نظر میں وہ گل سما گیا ہے، تمام ہستی پہ چھا گیا ہے
چمن میں ہوں یا قفس میں ہوں میں، مجھے اب اس کی خبر نہیں ہے
چمک دمک پر مٹا ہوا ہے، یہ باغباں تجھ کو کیا ہوا ہے
فریب شبنم میں مبتلا ہے چمن کی اب تک خبر نہیں ہے
یہ مجھ سے سن لے تو راز پنہاں سلامتی خود ہے دشمن جاں
کہاں سے راہ رو میں زندگی ہو کہ راہ جب پر خطر نہیں ہے
میں سر سے پا تک ہوں مے پرستی تمام شورش تمام مستی
کھلا ہے مجھ پر یہ راز ہستی کہ مجھ کو کچھ بھی خبر نہیں ہے
ہوا کو موج شراب کر دے فضا کو مست و خراب کر دے
یہ زندگی کو شباب کر دے نظر تمہاری نظر نہیں ہے
پڑا ہے کیا اس کے در پہ اصغرؔ وہ شوخ مائل ہے امتحاں پر
ثبوت دے زندگی کا مر کر نیاز اب کارگر نہیں ہے

اصغر گونڈوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *