مدت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شب وصال باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئی کچھ کہتے آ کے ہم تو سنا کرتے وے خموش اب ہر سخن پہ بحث ہے وہ بات بھی گئی عمامہ جانماز گئے لے کے مغبچے واعظ کی اب لباسی کرامات بھی گئی نکلی جو تھی تو بنت عنب عاصمہ ہی تھی اب تو خراب ہو کے خرابات بھی گئی پھرتے ہیں میر خار کوئی پوچھتا نہیں اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی