مرے بدن پہ ترے وصل کے گلاب لگے یہ میری آنکھوں پہ کس رت میں کیسے خواب لگے نہ پورا سوچ سکوں چھو سکوں نہ پڑھ پاؤں کبھی وہ چاند کبھی گل کبھی کتاب لگے نہیں ملا تھا تو برسوں گزر گئے یوں ہی پر اب تو اس کے بنا ہر گھڑی عذاب لگے یہ میرے جسم پہ کیسا خمار چھایا ہے تمہارے جسم میں شامل مجھے شراب لگے ہمیں تو اچھا ہی لگتا رہے گا وہ حیدرؔ بلا سے ہم اسے اچھے لگے خراب لگے