مسئلے اور بھی ہیں عشق کے آزار کے ساتھ
صرف اک کرب نہیں عمر کی رفتار کے ساتھ
کیسے میں آپ کی تعظیم بجا لاؤں گا
میری بنتی ہی نہیں حاشیہ بردار کے ساتھ
ہائے محرومیٔ قسمت کہ تجھے پا نہ سکے
ہم ہر اک سمت گئے حسرت دیدار کے ساتھ
ابھی خوش رنگ ہے تابانی مرے آنگن کی
رنجشیں ہونے لگیں کیوں در و دیوار کے ساتھ
درس دیتے ہیں بہت لوگ پیمبر والے
بیٹھتا کوئی نہیں مفلس و نادار کے ساتھ
اس کے حصے کا بھی غم مجھ کو عطا کر دے مگر
ان گنت خوشیاں رہیں مولا مرے یار کے ساتھ
گفتگو کا بھی سلیقہ نہیں جن کو شوقیؔ
آج پھرتے ہیں وہی منصب و دستار کے ساتھ
عامرشوقی